ہر مسلمان کو جہادی کہنا درست نہیں: سرما

گوہاٹی۔4 /اگست (ایجنسیز)ریاست آسام کے وزیراعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پوری مسلم کمیونٹی کو جہادی کہنا ناانصافی کی بات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ مسلمان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں نہ کہ پوری مسلم دنیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے چلائے جا رہے انسداد دہشت گردی آپریشن کا بنیادی مقصد مسلم کمیونٹی سے جہادیوں یا بنیاد پرست عناصر کو ختم کرنا ہے۔آسام اب جہادی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے اور بنگلہ دیش میں قائم دہشت گرد تنظیم انصار الاسلام کے پانچ ’ماڈیول‘کا گزشتہ چند مہینوں میں یہاں پر پردہ فاش کیا گیا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے یہ دعویٰ کیا۔سرما نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انصار الاسلام سے تعلق رکھنے والے چھ بنگلہ دیشی شہری نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے آسام آئے تھے اور ان میں سے ایک کو اس سال مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا جب بارپیٹا میں پہلا ماڈیول پکڑا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آسام سے باہر کے پرائیویٹ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے نام پر مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کی کوشش کرنا تشویشناک ہے۔ جہادی سرگرمی دہشت گرد یا انتہا پسندانہ سرگرمیوں سے بہت مختلف ہیں۔اس کی شروعات کئی سالوں کی ہیرا پھیری سے ہوتی ہے، اس کے بعد اسلامی بنیاد پرستی کے فروغ میں فعال شرکت ہوتی ہے اورآخر کار تخریبی سرگرمیوں کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ بنگلہ دیشی شہریوں نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران کئی تربیتی کیمپ لگائے۔انہوں نے کہا کہ ان میں سے اب تک صرف ایک بنگلہ دیشی کو گرفتار کیا گیا ہے اورمیں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگرریاست کے باہر سے کوئی مدرسہ میں استاد یا امام بنتا ہے تومقامی پولیس کو اطلاع دیں۔اس مقصد کے لیے ہمیں کمیونٹی کے تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم جہادی جیسے الفاظ استعمال کرکے مسلم کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں گے تو ہمیں ان کی حمایت نہیں ملے گی۔ ہمیں جہادیوں کو ختم کرنے کے لیے مسلم کمیونٹی کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ پولیس اور انٹیلی جنس کو آسام میں جہادی سرگرمیوں کے بارے میں صرف مسلم افراد سے ہی مستند معلومات مل رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ امن پسند مسلمان شہری جہادی یا بنیادی عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پولیس کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ میں کمیونٹی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مختلف نجی مدارس کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔مختلف علاقوں میں خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کو مساجد میں اماموں کا تقرر کرتے وقت بہت محتاط رہنا چاہئے۔