مہنگی پڑگئی یہ پُراسرار خاموشی

ملک میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے، ان واقعات پر ہمارے وزیراعظم کی پُراسرار خاموشی کو تائید سمجھا جارہا ہے -ان کی (بی جے پی) پارٹی کے نام نہاد لیڈران نفرت کی آگ پھیلارہے ہیں -مگر زبان سے ایک لفظ بھی مذمت میں مودی جی نہیں نکالتے- جملے بازی سے ملک کیسے چلے گا؟ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وکاش،سب کاپریاس، یہ جملے عملی طورپر اپنا اثر دکھاتے نظر نہیں آتے -اگر ان جملوں پر سچائی کا تھوڑا بھی عنصر ہوتا تو ملک کے ایسے حالات نہ ہوتے -ویسے وزیراعظم کا عہدہ سیاسی پارٹی کی وابستگی سے پرے ہوتا ہے -آپ جس پارٹی کے بھی رہے ہوں مگر جب قومی دستوری منصب پر فائز ہوں تو سب کے لئے آپ کا رویہ غیرجانبدارانہ ہو- اگر ایسا نہیں ہے تو یہ اپنے آپ میں آئین اورجمہوریت کے خلاف ہے -ایسی خلاف ورزی اوربے اعتدالی ملک اورعوام کیلئے مایوس کن ہے -ایسے طرز فکروعمل کے منفی اثرات تادیر قائم رہتے ہیں -ملک میں اسلاموفوبیا Islamophobia کے بڑھتے واقعات سے مسلمانوں میں عدم اطمینان بڑھتا جارہا ہے -نبی کریم صلعم کی شان میں گستاخی، مظاہروں میں شامل مسلمانوں پر ایک طرفہ مقامی پولیس وحکام کا جانبدارانہ رویہ، یوپی، گجرات اورمدھیہ پردیش (جہاں بی جے پی برسراقتدارہے) میں مسلمانوں پر انتقامی کارروائی کی آڑ میں بلڈوزر چلاکر مکانات منہدم کرنا، کبھی ٹوپی، داڑھی کبھی کرتہ پائجامہ پر واویلا مچانا، حجاب پر نئے نئے تنازعات کھڑے کرنا، مسلمانوں کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کرنا، گوشت پرگندی سیاست رچانا، حلال پر فتنہ مچانا، مسلم ڈرائیور، ڈیلوری بوائز کو ہراساں کرنا، بے وجہ ورغلانا، اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ دراز رکھنا ایسے واقعات ملک بھر میں ہورہے ہیں -صورتحال اس طرح سے آگے بڑھتی رہی تو ملک کی ترقی ہر لحاظ سے متاثرہوگی ہی- کیونکہ سماجی اتحاد اور قومی ہم آہنگی قوم کی ترقی کیلئے ضروری ہے -ملک کی معیشت کے سدھار کے لئے درکار اقدامات حکومت کی توجہ کے منتظرہیں - ان حالات میں ہمارے وزیراعظم ملک کے مفاد میں اگر اپنی خاموشی توڑکر شرپسند عناصرکو ایک بار تاکید وتنبیہ کرتے اورفسادی ذہنوں کو قابو میں لانے کے سنجیدہ طورپر جتن کرتے تو ایسی درگت سے ملک دوچارنہ ہوتا-
’سب کی سن اپنی کر‘والا معاملہ ہے تو اس کا خمیازہ مظلوموں کو بھگتنا پڑے گا- اپنی روٹی روزی میں الجھے ہوئے عام آدمی کو اپنا دیس ہی پردیس لگنے لگے گا- اب کچھ ایسا ہی مسلمان محسوس کرنے لگے ہیں -سکیولرزم کا مذاق اڑانے والے بی جے پی کے کچھ نام نہاد لیڈران کھلے عام مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے ہیں - زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کی باتیں کرتے ہیں -قانون ہاتھ میں لے کر بالادستی پر اتر آئے ہیں - حکومت آنکھیں بند کئے یوں رہتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں - آخر حالات کو بے قابو ہونے کیونکر دیا جاتا ہے - بقائے باہمی کے اصول پر قائم ملک کے مسلمانوں نے اخوت ویگانگت کو استحکام بخشا ہے -مگر ان کی نیک نامی پر سازشی شرپسند کالک پوتنے لگے ہیں - سکیولرزم کی دہائی دینے والا اپوزیشن کمزور اور رینگتا نظر آنے لگا ہے یا پھر کبھی لڑکھڑایا سا لگنے لگا ہے- اس بے ہنگم سیاسی بازار میں کبھی کبھی کوئی آواز انصاف اوراعتدال پسندی کے حوالے سے بلند ہوتی ہے تو یہ کارغنیمت نظر آتا ہے - سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے وزیراعظم کی ”چپی“ پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ تو وہ (وزیراعظم) بولیں تاکہ بدحواسی کا ماحول سدھر جائے- لفظوں کے کھیل پر بولتے ہوئے تھرور نے کہا ہے کہ ”جملے“ نہیں ”کام“ بولے تبھی تو دیش کا کلیان ہوگا-
عالمی سطح پر ملک کو جنت نشان بتانے والے ہمارے وزیراعظم اندرون ملک بگڑتے حالات پر اَن سنے اور ان دیکھے رہنے پر اکتفا کرتے ہیں -ان کی (وزیراعظم) کی بے نیازی دوسروں (ستم رسیدہ احباب) کو بے چین رکھتی ہے - ”چلوتو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو“ مخدوم کی یہ آرزو کاش کے ہمارے پرھان سیوک عملی طورپر سمجھ پاتے - مذہبی منافرت کے گھناؤنے سائے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں -منصوبہ بند طورپر مشترکہ تہذیبی وراثت کو داغدار کیا جارہا ہے -بے شرمی کی حد ہوگئی ہے کہ خرافات کو سچ ثابت کرنے کی ہوڑلگی ہے -ہندوستان کو عظیم طاقت بنانے کا عزم شاید یہ بھی جملہ ہی بن کر رہ جائے گا-