طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں،بلکہ مخلوط تعلیم کے مخالف ہیں: سروے

RushdaInfotech February 7th 2022 urdu-news-paper
 طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں،بلکہ مخلوط تعلیم کے مخالف ہیں: سروے

کابل-6فروری (ایجنسی)بظاہر طالبان لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کیلئے سیکنڈری اسکول جانے کے قابل بنانا چاہتے ہیں - کیا اس تعلیم کو مغرب کے نظریہ تعلیم کے معنوں میں لیا جا سکتا ہے؟آئندہ ماہ یعنی مارچ سے افغانستان میں لڑکیوں اور نوجوانوں کو دوبارہ اسکول جانے کی سہولت میسر ہوگی- یہ کہنا ہے طالبان حکومت کے ترجمان اور ثقافت اور اطلاعات کے امور کے نائب وزیر ذبیح اللہ مجاہد کا- انہوں نے خبر رساں ایجنسی اسو سی ایٹڈ پریس (اے پی) کو ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ لڑکیوں اور خواتین کیلئے تعلیم دراصل صلاحیت یا ہماری استطاعت کا مسئلہ ہے- ہم اس مسئلے کو آئندہ برس تک حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اسکول اور یونیورسٹیاں کھل سکیں -افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسکول کی لڑکیوں کیلئے ہاسٹلز کی شدید کمی ہے-طالبان کا نظریہ بلکہ شرط یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے کلاس روم الگ الگ ہوں - یہی نہیں بلکہ گنجان آباد علاقوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے کلاس رومز کو الگ الگ رکھنا بھی طالبان کیلئے کافی نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے اسکول کی عمارتیں ہی الگ الگ ہوں -ایک جرمن تھنک ٹینک کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن کے کابل میں قائم دفتر کی سربراہ ایلینور زینو اس سال کے موسم گرما تک اس دفتر کی سربراہی کرتی رہیں گی تاہم طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ تاشقند میں ہیں - ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوبارہ ملک پر قابض ہونے کے بعد شروع سے ہی یہ کہا ہے کہ وہ بنیادی طور پر تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، بشمول لڑکیوں کی تعلیم کے-زینو کا کہنا تھا کہ طالبان اس پر عملدرآمد بھی کریں گے، کم از کم کسی حد تک- تاہم زینو کا اشارہ طالبان کی طرف سے رکھی گئی دو بنیادی شرائط کی طرف ہے- وہ کہتی ہیں کہ ایک طرف تو طالبان اسکولوں میں اور عمومی طور پر عوامی زندگی میں بھی صنفی علاحدگی کے قائل ہیں - دوسری جانب طالبان کی کڑی نظر تعلیمی نصاب پر ہے جسے ان کے مذہبی نظریات کے حساب سے ہونا چاہیے- اس بارے میں سامنے آنے والے بیانات بہت ہی مبہم ہیں -


Recent Post

Popular Links