شہنشاہ جذبات دلیپ کمار عظیم اداکار اور لازوال فنکار

ہندی سنیما میں شہنشاہ جذبات کے لقب سے مشہور دلیپ کمارکی شہرت اور مقبولت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، یہی وجہ ہے اداکارامیتابھ بچن کا کہنا ہے ہندوستانی فلموں کی تاریخ دوحصوں میں لکھی جائے گی،ایک دلیپ کمار سے پہلے اور دوسرا حصہ دلیپ کمار کے بعدکی تاریخ پر مبنی ہوگاکیونکہ فلمی صنعت پر ان کے نقوش پائے جاتے ہیں۔دلیپ کمار11 دسمبر 1922کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام یوسف خان ہے۔ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ناسک کے قریب دیو لالی کے برنس اسکول سے ہوا۔ 1932 میں ان کا خاندان ہمیشہ کے لئے ممبئی منتقل ہوگیا جہاں انجمن اسلام اسکول سے میٹرک اور خالصہ کالج سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی۔سال 1943 میں دلیپ کمار کی ملاقات بمبئی ٹاکیز کے مالکان دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رانی سے ہوئی جنھوں نے انہیں اپنی فلم کے مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کرلیا اور اس طرح سال ٍ1944 میں آئی فلم جوار بھاٹا سے بالی ووڈ میں ڈیبیو کیا۔ اسی زمانے میں ہندی زبان کے مصنف بھگوتی چرن ورما نے یوسف خان کو دلیپ کمار کا نام دیا۔سال 1947 میں آئی فلم' ملن' ناکام ثابت ہوئی جبکہ شوکت حسین رضوی کی ہدایت میں فلم'جگنو" نے دھماکہ خیز کامیابی حاصل کی۔اس فلم کی ہیروئن شوکت رضوی کی شریک حیات اور بعد میں ملکہ ترنم کا خطاب پانے والی نورجہاں ہیں۔سال 1952 میں ہدایت کار محبوب خان کی فلم 'آن'میں دلیپ کمار ایک زبردست ٹیکنی کلر کردار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن اس کے باوجود بعض نقادوں کا ماننا تھا کہ وہ دوسری قسم کے کرداروں کو ادا نہیں کرپائیں گے۔1954 سے لے کر 1958 تک جوگن، آرزو، بابل، ترانہ، داغ، دیدار، دیوداس، مدھومتی اور یہودی جیسی ناقابل فراموش فلموں میں اپنی المیہ اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں ٹریجڈی کنگ کے نام سے پکارا جانے لگا۔سال 1960 میں فلم کوہ نور”کے ایک نغمہ'مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے 'کو فلمانے سے قبل انہوں نے اداکاری میں حقیقت کا عنصر پیدا کرنے کے لئے کڑی محنت کرکے ستار بجانا بھی سیکھا اور اس کوشش میں ان کی انگلیاں تک زخمی ہوگئیں۔قبل ازیں 'نیا دور' کے لئے بھی اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے انہوں نے باقاعدہ تانگہ چلانے کی تربیت حاصل کی۔سال 1960 میں تاریخی فلم 'مغلِ اعظم'میں شہزادہ سلیم کے کردار نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور اپنی لازوال فنکاری سے مداحوں کے دلوں میں گھرکر لیا۔ 1966 میں اے آر کاردار کی ہدایت میں وحیدہ رحمان کے ساتھ فلم 'دل دیا درد لیا’منظر عام پر آئی۔ یہ فلم کامیاب رہی۔سال1967 میں جلوہ گر ہوئی فلم 'رام اور شیام'کو ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔اس فلم میں ان کے مقابل وحیدہ رحمان اور ممتاز ہیں۔اس فلم کو نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ متعدد دفعہ اس کی نقل بھی کی گئی جیسے ہیمامالنی کی سیتا اور گیتا، سری دیوی کی چالباز اور انل کپور کی کشن کنہیا وغیرہ شامل ہیں۔رام اور شیام کی ریلیز سے قبل 1966 میں انہوں نے سائرہ بانوکے ساتھ شادی کرلی۔اسی (80) کی دہائی میں یوں تو ان کی بہت سی فلمیں آئیں مگر ان کی اہم ترین فلمیں رمیش سپی کی ہدایت میں 'شکتی' جس میں ان کے مقابل امیتابھ بچن تھے، دوسری1984 میں یش چوپڑہ کی ہدایت والی فلم'مشعل'اور تیسری فلم1986 میں وطن پرستی پر مبنی'کرما'ہے جس کے ہدایت کار سبھاش گئی ہیں، ان کا فن سر چڑھ کر بولتا ہے۔نوے کی دہائی میں 'سوداگر' دیکھنے کے قابل ہے جس میں ان کے مقابل راج کمار تھے۔ 1998 میں فلم قلعہ میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد دلیپ کمار نے فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔دلیپ کمار سب سے زیادہ تعداد میں ایوارڈز جیتنے والے انڈین اداکار کا گینز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ انہیں ہندی سنیما کے سب سے بڑے اعزاز 'دادا صاحب پھالکے ' سے نوازا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی وہ پدم بھوشن ایوارڈبھی حاصل کر چکے ہیں۔علاوہ ازیں وہ پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اعزاز نشانِ پاکستان سمیت لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ زاور دیگر بیشمار فلمی ایوارڈز سے بھی سرفراز ہو چکے ہیں۔