اُڑی کے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے ،کم ہے میڈیا خانگی ہے یا سرکاری سمجھ سے باہر

RushdaInfotech September 30th 2016 p-6
اُڑی کے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے ،کم ہے میڈیا خانگی ہے یا سرکاری سمجھ سے باہر

اِن دنوں اگر آپ اپنا ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھیں اور کوئی بھی خبروں کا چینل دیکھنا شروع کریں ،آپ خود کو جنگ کی حالت میں پائیں گے اور اگر بھولے سے ٹائمز ناؤ دیکھنے لگے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ جنگ کے میدان میں موجود ہیں اورارنَب گوسوامی آپ کو جوش دلا رہے ہوں بلکہ ورغلا رہے ہوں کہ بڑھئے،آگے بڑھئے۔۔۔ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانی ہے۔جمہوریت میں کسی ملک کا تقریباًتمام میڈیا ایک زبان ہو کر اگر بات کرنے لگے تو سمجھئے اس ملک میں فضا کچھ ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ میڈیا کو چوتھا ستون کہا گیا ہے۔ ۔میڈیا کا کام ہی ہے کہ حکومت کی ناکامیوں کو بر سرِ عام لائے،یہ نہیں کہ اچھائیوں کا ہمہ وقت گُن گان کرتارہے۔حکومت کی اچھی کار کردگی کا پتہ عوام کو خود بخود چل جائے گا۔آج کے عوام اِتنے بھی بھولے نہیں کہ اچھے کاموں کو محسوس نہ کریں اور اس کے پھل نہ کھائیں لیکن ہندوستانی میڈیا نے ملک اور حکومت کو ایک کرکے رکھ دیا ہے۔اگر آپ حکومت کی کارکردگی کے خلاف اپنی زبان کھولتے ہیں تو آپ کی یہ جر�أت ملک سے غداری کے زمرے میں آتی ہے۔اِ س کے فیصلے کے بر عکس اگرآپ کی رائے ہوتی ہے تو ممکن ہے آپ کو جیل کی ہوا کھانی پڑے۔یہ تو ایک فرد کے لئے ہے،اگر کوئی گروہ ایسی حرکت(اس حکومت کے نظریے سے) کرتا ہے تو اس کی ملک سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ملک کی کوئی چھوٹی یا بڑی سیاسی پارٹی ایسا کرتی ہے تو یہ میڈیا سارا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے اور اسے اِتنا لعن طعن کرتا ہے کہ مت پوچھئے،اس کے ووٹ بینک کے بینک رَپٹ یعنی دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ایسے میں ملک کے میڈیا اور حکومت میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات تو ایساہوتا ہے کہ حکومت کے کچھ لوگ اور میڈیا دونوں مل کر ان کے پیچھے ایسا پڑتے ہیں اور پروپیگنڈہ کی لو اتنی تیز کر دیتے ہیں کہ وہ فرد یا گروہ خود کو ایسا محسوس کرنے لگتا ہے کہ خدانخواستہ وہ ویسا ہی تو نہیں ،جیسا کہ کہا جارہا ہے۔وہ اپنی معتبریت اور اہمیت کو کمتر گرداننے لگتا ہے،باہر کے لوگ جو سمجھتے ہیں وہ الگ ہے۔اس کی مثال ایک نہیں بلکہ کئی ہیں۔راہل گاندھی کوہی لے لیجئے۔حکومت اور میڈیا والے اس قدر ان کے پیچھے پڑے ہیں کہ اللہ کی پناہ! انھیں نیم پاگل تو کر ہی دیا ہے۔ان کی بات اور خیالات کو مذاق کا موضوع بنا دینا سیکنڈوں کا کام ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں ’کھاٹ سبھا‘ کے ساتھ کیا گیا۔دوسری مثال دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی ہے۔اروند کجریوال کو لوگ اب نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔وہ خود بھی اپنے کو کس حالت میں پاتے ہیں ،یہ تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے۔حکومت اور میڈیا اِن دونوں کا بس ایک ہی کام رہ گیا ہے جس کا مشاہدہ عوام بڑی شدت سے کر رہے ہیں کہ’’اپنے مخالفین کے پیچھے ایسا پڑو ،ایسا پڑوکہ وہ پناہ مانگنے لگیں ،بلکہ انھیں پاگل کر دو تاکہ وہ صحیح سالم رہ سکیں ،نہ ہی کچھ کر سکیں ۔نفسیاتی طور پر انھیں شکست دے دو‘‘۔ گویایہ حکومت اور میڈیا کی پالیسی ہو گئی ہے۔
ایسی صورت میں میڈیا کا چوتھا ستون کہلانا نا مناسب لگتا ہے اور یہ جمہوریت کی بقا کے لئے حد درجہ مہلک ہے۔ممکن ہے کہ ہم فسطائیت کی طرف گامزن ہیں اور یہ ملک ہندوستان کے لئے قطعی بہتر نہیں ۔آج جہاں ہم کھڑے ہیں ،دنیا میں ہماری جو پوزیشن مستحکم ہوئی ہے،ہمارے لوگ جو بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بر سرِ روزگار ہیں اور بعض تو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں،کئی ایک تو سی ای او ہیں،یہ سب کوئی دو ڈھائی برسوں میں نہیں ہوا ہے بلکہ ایک زمانے سے اور ایک پروسیس (عمل)کے تحت اور محنت سے ہوتا آرہا ہے اور ہمارا میڈیا اور ہماری موجودہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ یہ سب ایک پل میں نیست و نابود ہو جائے،دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے نام پر۔
اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کے وزیر اعظم کی باری پر سب کی نگاہیں مرکوز تھیں جیسا کہ وہ کوئی دھماکہ کرنے والے ہیں ۔یہ بات ویسے سب کو معلوم تھی کہ وہ کیا کہنے والے ہیں لیکن ہمارا میڈیا جو خواہ مخواہ یہ توقع کئے بیٹھا تھا کہ وہ بلوچستان پر بھی بولتے ہیں کہ نہیں ،سراب ثابت ہوا۔نواز شریف نے اپنی پوری تقریر کشمیر کی جنگجوئیت سے منسوب کر دی اور برہان وانی جو ہندوستان کے لئے ایک دہشت گردہے اس کو اپنا کہہ کرقبول کر لیا۔گویا کہ کشمیر کی جنگجوئیت کو حق بجانب قرار دے دیا۔ایک بین الاقوامی فورم سے پاکستان کی جانب سے ایسا خطاب پہلی بار ہوا ہے۔اس سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ کشمیر کا بس ذکربھر آجاتا تھا لیکن جنگجوئیت کو اپنانے کا پاکستان کا یہ پہلا اقدام ہے اور یہ موقع ہم نے اسے مہیاکیا ہے۔۔۔بلوچستان کے مسئلے کو خواہ مخواہ اٹھا کر۔کچھ تجزیہ نگار اسے وزیر اعظم مودی کی چانکیہ پالیسی مانتے ہیں لیکن پاکستان کے لئے ہم نے جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ بھی ہمیں دہشت گردوں کا حامی ثابت کرے۔
ٹائمز ناؤ پر روزانہ دو مباحثے رکھے جاتے ہیں ۔کچھ دنوں سے ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ اس میں ایک بحث(debate) بلوچستان پر مختص ہے اور دوسرا اس نوعیت کا ہوتا ہے جس سے ملک میں افرا تفری پھیلانے والا موضوع ہی زیر بحث ہو۔اَرنَب کو ملک میں کوئی دوسرا موضوع بحث کرانے کے لئے نہیں ملتا جب کہ سیکڑوں موضوع جا بجا بکھرے پڑے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت (وزیر اعظم پڑھئے) نے انھیں یہ کام سوچی سمجھی حکمت عملی(سازش بھی کہہ سکتے ہیں) کے تحت سونپ دیا ہے اور تقریباً ہر چینل کو ایک ایک سلگتا ہو اموضوع دے دیا گیا ہے۔اسی پر دن رات یہ بحث کراتے رہتے ہیں اور اپنی ٹی آر پی کے ساتھ بہت کچھ بڑھاتے رہتے ہیں ،اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔بلوچستان کے باغی لیڈران کینڈا،واشنگٹن، جنیوا، لندن، سوئزرلینڈ سے ارنَب کے چینل پر انٹر نیٹ کے ذریعے آجاتے ہیں۔وہ بار بار بلوچستان کی 2001ء یا2005ء کی ویڈیو کِلپ دکھاتے ہیں اور بحث کو خونریز بناتے رہتے ہیں ۔حالیہ کوئی کلپ ان کے پاس نہیں ہے۔وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بلوچستان کے باغی چہرہ برہمداغ بُگتی اس میں پیش پیش رہتے ہیں ۔غالباً وہ سویزرلینڈ سے بحث میں شامل ہوتے ہیں ۔اب تو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بُگتی نے سیاسی پناہ کے لئے ہندوستان کو عرضی بھی دے رکھی ہے اور بہت ممکن ہے کہ چانکیہ پالیسی کے تحت انھیں سیاسی پناہ بھی مل جائے۔اس سے ایک قدم آگے کی بات سننے میں آرہی ہے کہ مغربی یوپی کے ضلع باغپت کے ’بلوچ پورہ‘سے بلوچستان کی متوازی حکومت چلانے کا مودی حکومت بندوبست کرے گی جس کے لیڈر بگتی ہوں گے۔(یو پی کے2017ء کے صوبائی الیکشن کو مد نظر رکھیں،اور یہ کشمیر کاmessبھی یو پی الیکشن کے لئے ہی ہے) ۔
پاکستانی وزیر اعظم کی تقریر کے بعد سارے چینلوں نے گویا ایک زبان ہو کر بات کی۔’’وہ تھکا ہوا دکھائی دے رہاتھا،اُس کے کندھے جھکے ہوئے تھے،اُس کا باڈی لنگویج خوف زدہ تھا،اس کی زبان میں لکنت تھی،وغیرہ۔قارئین خود یہ طے کریں کہ میڈیا کو کیا یہ زیب دیتا ہے کہ اس طرح کے جملے ایک سُر میں ادا کرے اور ذاتی حملہ کرے ؟اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا کہنے کو تو پرائیوٹ ہے لیکن سرکاری میڈیا سے بھی کئی قدم آگے بڑھ گیا ہے۔جس آکروش یعنی عوامی غصے کی بات یہ میڈیا ایک زبان ہو کر کرتا ہے ،اس کی حقیقت اگر ہے تو بھی مستقبل اور بہتری کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
بلوچستان کے باغی بُگتی کو اگر ہم ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں تو یہ ہمارے لئے ٹھیک نہیں ہوگاکیوں کہ پاکستان کو ایک اور موقع مل جائے گا،یہ کہنے کے لئے کہ ’’ہمارے دہشت گرد کو ہندوستان ہیرو کہہ رہا ہے‘‘اور جتنی بھی دہشت گردانہ کارروائیاں اب سے پاکستان میں رونما ہوں گی وہ سب ہمارے سر تھوپ دے گا اور ہمارے لئے دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا،کیوں کہ بُگتی پاکستان کے لئے ایک مفرور دہشت گرد ہے اور پھر کشمیر کی دہشت گردی کو ہم دہشت گردی کیسے کہہ سکیں گے؟اُڑی کے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے ،کم ہے لیکن غصے اور جلد بازی نیز جذبات میں قدم اٹھانا مناسب نہیں ہوگا۔قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈھبال اِن تمام باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم کو وہ نیک مشورہ دیں گے اور اس کے لئے راہ ہموار کریں گے کہ پندرہ لاکھ ،اچھے دن اور سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی طرح چھپن انچ کا سینہ اور لو لیٹر بھی سیاسی فتح درج کرنے کے لئے ’’جملے ‘‘ ہی ہوں۔ 
****
(مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں) 


Recent Post

Popular Links