باڈی ٹرانسفارمیشن یا جسم میں تبدیلی لانا آئیے ۔۔۔ آج کچھ اپنے بارے میں بتاتا چلوں ۔۔۔

RushdaInfotech July 21st 2018 p-8
باڈی ٹرانسفارمیشن یا جسم میں تبدیلی لانا آئیے ۔۔۔ آج کچھ اپنے بارے میں بتاتا چلوں ۔۔۔

بچپن سے ہی ایک نامور ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی، اس پر محنت کی ، پڑھائی جی لگا کر کی ، محنت رنگ لائی ، رب العزت کسی محنت کرنے والی کی محنت کو کبھی ضائع نہیں کرتے ، اتنا اچھا پھل ملا کہ بالآخر ایم ایم بی ایس ڈاکٹر کی ڈگری ہاتھ آگئی۔ 
ایک ڈاکٹر کا مطلب میری نظر میں یہ تھاکہ وہ ہر بیماری کا اعلاج کرسکتا ہے ، ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا علاج کوئی ڈاکٹر نہ کرسکتا ہو ۔ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے میں بھی اس میدان میں آگیا ۔ مگر ۔۔۔ یہاں میری آنکھیں کھل گئیں۔ اس میدان کا ماحول ہی عجیب تھا، یہاں ایک ایک بیماری کے لئے ایک ایک مخصوص ماہر تھا، میں محسوس کرتا تھا کہ میں ڈاکٹر ہونے کے باوجود کئی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتا تھا، مریض میرے سامنے ہوتا ، میں اس کی بیماری کی پوری روداد سنتا ، لیکن میں اس کا علاج نہیں کرسکتا تھا، مجھ میں اور مریض میں بس فرق صرف اتنا تھا کہ میں بیماری سے متعلق علم رکھتا تھا، اور مریض علم نہیں رکھتا تھا۔۔۔ اس سے بڑی بات یہ تھی کہ میں علم رکھنے کے باوجود اس بیماری کاعلاج نہیں کرسکتا تھا۔ 
میری بے چینیاں بڑھ گئیں، میں نے عزم کرلیا کہ مجھے اور آگے پڑھنا ہے ، مجھے ایسا بننا ہے کہ میں ہر بیماری کا علاج اطمینان سے کرسکوں، میں نے دوبارہ محنتیں کیں، اس کے لئے دن رات ایک کردئے ۔ میڈیکل کی مزید پڑھائی کے سلسلے میں ہندوستان کے مختلف شہروں جیسے ممبئی اور حیدر آباد کے علاوہ مختلف ممالک ، امریکہ ، ملیشیاء ، آسٹریلیا ، جرمنی اورلندن وغیرہ کی اعلیٰ پیمانے کی عظیم میڈیکل کالجوں میں پڑھائی کی اور مختلف بیماریوں کی مختلف ڈگریاں حاصل کرلیں۔ 
اتنی پڑھائی کے بعد محسوس ہوا کہ ۔۔۔ اس زمین پر کوئی ایسی بیماری رب العزت نے وجود میں نہیں لائی ہے جس کا علاج بھی اسی زمین پر نہ رکھ چھوڑا ہو ۔ 
آج کے علاج کے طریقے
آئیے علاج کے کچھ طریقوں پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔۔۔
آج ایک مریض اپنی بیماری کے علاج کے لئے کسی بڑے اسپتال جاتا ہے تو پتہ نہیں اس کے کتنے قسم کے ٹسٹ لئے جاتے ہیں۔ کمانے کے دور ہے ۔ ہزاروں روپے کی مشینیں انسانی ٹسٹ کے لئے لائی گئی ہیں۔ ان مشینوں کا خرچہ نکالنا بھی ضروری ہے ۔ دنیا بھر کے ٹسٹوں کے بعد اور ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کردینے کے باوجود بھی کبھی کبھار بیماری کی وجہ یا بیماری کا جڑ کا پتہ نہیں چلتا ۔ مریض اپنی زندگی کا سارا سرمایہ ڈاکٹروں کے پیچھے لگادیتا ہے، پھر بھی بیمار کا بیمار ہی رہتا ہے ، یہ مشینیں بھی اس کی اصل بیماری کا پتہ کبھی کبھار نہیں دے پاتیں۔ 
ایک نیا علاج 
ٹیکنالوجی کی ایک نئی ایجاد نے آج کے غریب سے غریب مریض کو بھی انتہائی سستے داموں میں بیماری کااصل جڑ اور وجہ جاننے کا ایک طریقہ ایجاد کرلیا ہے ۔اس طریقہ کا نام ہے باڈی آنالائسس۔ساری دنیا میں صرف دو ہی ممالک ایسے ہیں جن کی فوج سب سے بہترین، سب سے عقلمند مانی جاتی ہے ، اس جیسی فوج کسی دوسرے ملک کو نصیب نہیں ۔۔۔ ایک امریکہ اور دوسرا اسرائیل ۔۔۔ ان دونوں ملکوں کی ملٹری جہاں اپنے پاس عجیب عجیب قسم کے ، نئے نئے ہتھیار رکھتی ہے وہیں ان کے پاس ایک ایسا طریقہ بھی ہے جس کے ذریعہ وہ زمین کے اندر تک کی چیزوں اور جگہوں کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیتے ہیں، وہ ہے کسی بھی چیز کا گہرائی سے جائزہ لینا ، گہرائی کے ساتھ وہ دشمنوں کے چھپے ہونے کی جگہوں کا ، یوں سمجھئے کہ اسکیان کرلیتے ہیں، ہر چیز کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے کسی دشمن کا ٹھکانہ چھپا نہیں ہوسکتا ۔ 
جبکہ جاپان نے اس طریقے کو انسانی جسم کے اندر جھانکنے ، اس کا جائزہ لینے ، اس کے ایک ایک عضو کو ٹٹولنے کے لئے استعمال میں لایا ۔ انالائسس طریقے سے کسی بھی انسان کے جسم میں موجود ہر ہر عضو کا حال ، اس کا کنڈیشن ، اس کی حرکتیں، اس کی بے ترتیبی کا پتہ آسانی سے لگا لیا جاسکتا ہے ۔ ایک ڈاکٹر کے پاس کوئی مریض آتا ہے تو اس کی بیماری کا پتہ دو باتوں سے چلتا ہے ، ایک ہے خون کی جانچ جسے بلڈ ٹسٹ کہتے ہیں اور دوسرا Analysis یعنی گہرائی کے ساتھ انسانی جسم کا جائزہ لینا ۔۔۔
بلڈ ٹسٹ کیوں کیا جاتا ہے ؟ 
کھانا پوری طرح پکا ہے یا نہیں ، یہ جاننے کیلئے صرف دو دانوں کو انگلیوں سے دبا کر دیکھنا ہی کافی ہے ، سارے کھانے کو دبانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہی کام بلڈ ٹسٹ کرتا ہے ، بلڈ ٹسٹ بتا دیتا ہے کہ اس انسانی جسم میں کیا کچھ کمی ہے ، کیا کیا کمزوریاں ہیں ، کہاں کہاں نقص ہے ۔ اور باڈی انالائسس تقریباً ایک سو صفحات کی رپورٹ کسی ڈاکٹر کے حوالے کرتا ہے ، جس میں اس انسانی جسم کی پوری تفصیل ، ایک ایک بال کی رپورٹ ، ایک ایک عضو کا کنڈیشن ، مکمل اور تفصیل کے ساتھ درج کرتا ہے ۔ ایک اچھا ڈاکٹر بلڈ ٹسٹ اور انالائسس کی رپورٹ ملا کر ایک ساتھ مطالعہ کرکے اس بیمار کی بیماری کی اصل جڑ تک پہنچ جاتا ہے، جس سے اسے صحیح علاج کرنے میں انتہائی مدد ملتی ہے ۔ 
باڈی ٹرانس فارمیشن کلینک
یہی کام ہماری باڈی ٹرانس فارمیشن کلینک میں ہوتا ہے ۔۔۔یہ بات خوب جان لیجئے کہ صحت کے اعتبار سے آدمی تین طرح کے ہوتے ہیں۔۔۔ ایک صحت مند ۔۔۔ دوسرا اگرچہ کہ وہ بیمار نہیں ہوتا لیکن ہمیشہ پریشان ضرور رہتا ہے ۔۔۔اور تیسرا بیمار۔۔۔ 
ایک صحت مند انسان چاہتا ہے کہ مجھے مزید صحت ملے ، میں گورا ہوں تو مجھے اور گورا بننا ہے ، مجھے اپنا وزن کم کرنا ہے ، میرے بال خوبصورت ہوں، میں لوگوں کے لئے ماڈل بنوں، لوگ مجھے حسرت بھری نظروں سے دیکھیں ۔۔۔ ایسے صحت مند انسان کو ہماری کلینک میں مزید اچھی صحت کی طرف لانے کا علاج کیا جاتا ہے ، یقیناًاس کے رنگ میں تبدیلی لائی جاتی ہے ، اسے ایسے طریقوں سے گزارا جاتا ہے جہاں اس کا وزن ٹھیک ٹھاک ہو ، اس کے جسم کا ایک ایک عضو خوبصورت اورصحت مند بن جائے ۔ 
دوسرا پریشان قسم کا آدمی ۔۔۔ جسے یہ نہیں معلوم کہ وہ بیمار نہیں ہے ، لیکن اسے پریشانی یہی ہے کہ مجھے کچھ نہ کچھ بیماری ضرور ہے ، ایسے انسان کو باڈی انالائسس کے ذریعہ اس کی پریشانی کی وجہ معلوم کرکے اسے بھی کچھ ایسے انوکھے طریقوں سے گزارا جاتا ہے کہ وہ اپنی پریشانی سے ہمیشہ کے لئے نجات پا جائے ۔ 
رہا بیمار مریض کا سوال ۔۔۔ تو باقاعدہ علاج کے ذریعہ اسے صحت کی طرف لایا جاتا ہے ۔ 
وہ احباب جو اچھی صحت کے خواہشمند ہوں، اپنی صحت کو بہت اچھی بنانا چاہتے ہوں، جو یہ چاہتے ہوں کہ لوگ انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھیں ، وہ احباب جو پریشان ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اندر کوئی بیماری ہے جبکہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی اور وہ لوگ جو واقعی بیمار ہوں، اپنے علاج کے لئے ، ایک صحت مند اور خوشحالی زندگی جینے کے لئے ہمارے پاس ضرور تشریف لائیں، انشاء اللہ آپ کی ہر بیماری کا علاج کیا جائے گا ۔ 
انشاء اللہ اگلے ہفتے کسی ایک نئی بیماری پر بات کریں گے ۔ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ 



دل ٹوٹنے کا کیسے مقابلہ کیا؟
کم ہی غم دل ٹوٹنے سے بڑے ہوتے ہیں۔ جن پر گزرتی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں۔ایسا ہی کچھ ریالٹی شو ’’لو آئی لینڈ‘‘ کی جورجیا سٹیل پر پچھلے ہفتے گزرا جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے سابق دوست ایک نئی گرل فرینڈ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جا رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے میرا دل بھی ٹوٹا، لیکن اس کی نوعیت جورجیا کے دل ٹوٹنے سے مختلف تھی کیونکہ یہ ٹی وی کے لاکھوں ناظرین کی آنکھوں کے سامنے نہیں ٹوٹا تھا۔ میری امیدوں بھری محبت اچانک ختم ہو گئی تھی۔ میں جس شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کی متمنی تھی، اس نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔ یہ میرے لیے زبردست صدمہ تھا اور مجھے لگتا تھا کہ اب زندگی وہ نہیں رہے گی جو پہلے تھی۔میں نے اس غم سے نمٹنے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ میں لندن، جہاں میری 32 سالہ زندگی کے 27 برس گزرے تھے، چھوڑ کر ایک دیہی علاقے میں منتقل ہو گئی۔اس کی وجہ یہ تھی مجھے لگتا تھا کہ اگر کبھی میرا اس سے آمنا سامنا ہوا، بس میں، ٹرین میں، کسی شاپنگ مال میں، تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔اگلے آٹھ ماہ تک میں نے دل بہلانے کی بڑی کوششیں کی، سمندر میں تیراکی، میلوں تک چہل قدمی، پہروں رونا، ایک پروجیکٹ پر کام۔ لیکن اداسی کی دھند نہ چھٹنا تھی نہ چھٹی۔ مجھے احساس ہوا کہ میری جیسی شہری خاتون کے لیے دیہی زندگی مزید تنہا کر دینے والی ہے۔ میرے خاندان والے میرے قریب تھے لیکن مجھے دوستوں کی ضرورت تھی۔ فون پر ان سے رابطہ کچھ عرصے رہا، پھر انھوں نے بھی فون کرنا چھوڑ دیا۔
میرے پاس گاؤں آنے کے وعدے بھی کبھی وفا نہیں ہو سکے۔ زندگی کب کسی کے لیے رکتی ہے؟ میں خود کو پہلے سے زیادہ تنہا محسوس کرنے لگی۔میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا دل ٹوٹنے کا کوئی مثبت طریقہ بھی ہو سکتا ہے؟ اس وقت مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملا لیکن ایک سال بعد میں خود ہی اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرنے رہی ہوں۔
دل ٹوٹنا ہوتا کیا ہے؟
ماہرِ نفسیات جو ہیمنگز کہتے ہیں:'یہ دراصل زبردست جذباتی نقصان کی کیفیت ہے۔ یہ حالت ہر انسان پر مختلف طریقے سے گزرتی ہے لیکن اس میں دکھ، غم اور غم کی حالت سے کبھی باہر نہ آ پانے کا احساس شامل ہوتا ہے۔اگر دماغ کے اندر دیکھا جائے تو وہی حصے ان جذبات کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو اصل جسمانی درد کی صورت میں فعال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ایسی ہی علامات پائی جاتی ہیں جو نشے کے عادی افراد نشہ ٹوٹنے کے بعد محسوس کرتے ہیں۔
میرے لیے یہ کیفیت ایسی تھی جیسے جسم اندر سے جل رہا ہو۔ان علامات پر قابو پانا اصل مشکل ہے۔ اس دوران آپ پر ناقابلِ برداشت غلبہ طاری ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے کھوئے ہوئے محبوب کو دوبارہ فون کریں، اس کی منت سماجت کریں، اسے سمجھانے کی کوشش کریں کہ آپ کون ہیں۔جو کہتے ہیں: جذباتی اعتبار سے تعلق ٹوٹنے سے آپ غم کے پانچ مراحل سے گزرتے ہیں: نفی، غصہ، سودا بازی، پژمردگی، اور بالآخر قبولیت۔
دل ٹوٹنے سے کس طرح نمٹا جائے؟
یہ ایک آرٹ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سائنس سے مدد نہیں لے سکتے۔ سائنس دانوں نے اس پر تحقیق کر رکھی ہے کہ اس دوران جسم پر کیا گزرتی ہے اور اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔مثال کے طور پر نفسیات کے ایک رسالے میں حال ہی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق تین طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔ اپنے سابق ساتھی کی بری باتیں سوچنا، اس کے بارے میں اپنی محبت کو قبول کر لینا، اور اپنے ذہن کوکسی اور طرف الجھا لینا۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں طریقے تعلق ٹوٹنے کا غم غلط کرنے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
ان تینوں حکمتِ عملیوں کی مثالیں:
تعلقات کی ماہر ڈی ہومز کہتی ہیں: 'خود کو کچھ وقت دیں۔ اپنے دوستوں سے بات کریں اور ڈائری میں لکھیں کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اس چیز کو اپنی زندگی پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اندھادھند فیصلے نہ کریں۔جو کہتی ہیں کہ اپنے سابق ساتھی کو سوشیل میڈیا پر ان فالو کر دیں۔ایسی تصویریں یا پیغامات ڈیلیٹ کر دیں جو آپ کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ اس سے آپ کے زخم مندمل ہونے میں مدد ملتی ہے۔غم کے مختلف مراحل میں غصے کا اپنا کردار ہے۔ میرا اپنا غصہ آتش فشانی تھا۔ غصے کے اپنے فائدے ہیں، کیوں کہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اس شخص کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ تاہم بعض دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ آپ خود کو یقین دلانے کی کوشش کریں کہ آپ نے کبھی ان سے محبت کی ہی نہیں تھی۔
آپ غور کریں کہ آپ کے ساتھی میں کیا خوبیاں تھیں، پھر ان خوبیوں کو کسی اور میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ میرا ساتھی بہت ہمدرد تھا۔ کیا دنیا میں اور ہمدرد لوگ موجود ہیں؟ ظاہر ہے، موجود ہیں۔مجھے احساس ہوا کہ اس طرح سے اپنے تعلق کا پوسٹ مارٹم کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ شروع شروع میں نہیں۔سمندر میں مچھلیوں کی کمی نہیں، شروع میں یہ سوچ کسی کام کی نہیں ہوتی۔ لیکن رفتہ رفتہ اس احساس نے کام دکھانا شروع کر دیا کہ میرا ساتھی بے عیب نہیں تھا اور اس میں جو خوبیاں تھیں وہ اور لوگوں میں بھی ہیں۔ان نکات کو اکٹھے کر دیں اور پھر ایک منصوبے کے خدوخال ابھرنے لگتے ہیں: اپنی صورتِ حال کو قبول کریں اور اپنے آپ کو غم اٹھانے کی اجازت دیں۔ اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں سے بات کریں۔ ڈائری لکھیں، سوشیل میڈیا سے پرہیز کریں، تکلیف دہ چیزیں ڈیلیٹ کر دیں۔ اپنی توجہ بٹانے کی کوشش کریں۔ساتھی سے رابطے کا خیال دل سے نکال دیں۔ اس کی خامیوں کے بارے میں سوچیں۔ اس پر توجہ مرکوز کریں کہ اس کی خوبیاں دوسرے لوگوں میں بھی پائی جا سکتی ہیں۔اور سب سے بڑھ کر، وقت گزرنے دیں، جو سب سے بڑا مرہم ہے۔
اس عمل میں کتنا وقت لگتا ہے؟
آپ جلد بازی نہیں کر سکتے۔ ایک تحقیق کے مطابق تعلق کے بارے میں مثبت انداز سے سوچنے میں تین مہینے (11 ہفتے) لگتے ہیں۔جیسا کہ میں نے کہا، یہ کوئی سائنس نہیں ہے۔ خود مجھے اس پر قابو پانے میں چھ مہینے لگے۔ اس کے بعد سے میں نے اپنے سابق ساتھی کے لیے ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔دل ٹوٹنے کے بارے میں میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ اس سے نمٹنا اتنا آسان ہے کہ اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ اصل گر یہ ہے کہ آپ سمجھیں کہ آپ اس قابل ہیں کہ آپ سے محبت کی جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو کوئی اور مل جائے گا۔


Recent Post

Popular Links