بلیک میل کرنے والے کمپیوٹر وائرس سے ہوشیار

آئی ٹی ماہرین نے رینسم ویئر نامی ایک میل ویئر یا وائرس کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔یہ ایک نقصان پہنچانے والا وائرس ہے جو صارفین کے کمپیوٹر کو لاک کر دیتا ہے اور اسے کھولنے کے بدلے میں ان سے رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔آسٹریلوی حکومت کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2015 میں اب تک 72 فیصد کمپیوٹر سسٹم اس کا شکار ہوچکے ہیں، جبکہ 2013 میں یہ تعداد 17 فیصد تھی۔انٹرنیٹ سکیورٹی کمپنی لاک آؤٹ کے نائب صدرگرٹ جان شینک کا کہنا ہے کہ ’یہ وائرس موبائل فون کے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ اسے کسی بھی موبائل ایپ میں چھپایا جا سکتا ہے اور ایپ انسٹال کرنے کے دوران وائرس فون میں منتقل ہو جاتا ہے۔‘’اس سے بچنے کے لیے صارفین کسی بھی ایپ کو اپنے موبائل فون میں انسٹال کرنے سے پہلے گوگل پلے پر یہ جان سکتے ہیں کہ وہ ایپ کہاں سے آئی ہے اور اس کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہے۔ اس طرح وہ ناقابل اعتماد ذرائع سے آنے والی ایپس کو انسٹال کرنے سے بچ سکتے ہیں دیگر کمپیوٹر وائرس کی طرح رینسم ویئرکو بھی جعلی ای میل، سپیم میل، یا بھر نقلی سافٹ ویئر کی صورت میں بھیجا جاتا ہے۔ اگر صارف نے ان میں سے کسی پر بھی کلک کر دیا تو وہ وائرس ان کے کمپیوٹر میں داخل ہو جاتا ہے۔
یہ وائرس کمپیوٹر یا موبائل میں گھس کر صارف کی فائلوں کو تبدیل کر کے لاک یا بند کر دیتا ہے، اور اس کو دوبارہ چالو کرنے کے بدلے میں رقم طلب کی جاتی ہے۔یہ رقم اکثر کمپیوٹر کے ذریعے ہی طلب کی جاتی ہے کیونکہ اس کا سراغ لگانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے صارف کو ایک ویب سائٹ پر جا کر فارم پر کرنے کے لیے کہا جاتا ہے رقم کی مالیت تقریباً 500 ڈالر ہوتی ہے، جو ایک خاص مدت گزر جانے کے بعد ادا نہ کرنے کی صورت میں بڑھا دی جاتی ہے۔تاوان کی رقم ادا کیے بغیر اپنی فائلوں کو واپس حاصل کرنے کے واحد طریقہ یہی ہے کہ کمپیوٹر کے بیک اپ ورژن تک پہنچا جائے۔ایڈنبرا کی آئی ٹی کمپنی نیٹ ورک روئی کے نیل ڈگلس کا کہنا ہے کہ ’ہم نے حال ہی میں ایک چھوٹے کاروبار والے شخص کی مدد کی ہے جس کا کمپیوٹر رینسم ویئر کا شکار ہوگیا تھا۔ ہمیں بیک اپ میں جاکر ہر چیز کو واپس نکالنا پڑ رہا تھا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ ان بلیک میلروں کو رقم دے کر بھی جان چھڑا سکتے ہیں، لیکن ہم اس کو ایک آخری حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘ آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ ایک دفعہ رقم حاصل کرنے کے بعد وہ آپ سے مزید کا مطالبہ کریں اور آیا کہ انھوں نے وائرس کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے یا نہیں۔‘سائبر سکیورٹی کے ماہر پروفیسر ایلن وڈورڈ کہتے ہیں کہ ’ان بلیک میلروں کو رقم ادا کرنے کا مطلب ہے کہ آپ مزید سائبر جرائم کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد آپ ان کے آسان ہدف کی فہرست میں آ جاتے ہیں۔‘
انٹرنیٹ ماہرین لوگوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان بلیک میلروں کو رقم نہ دیں لیکن پھر بھی زیادہ تر لوگ ان کو رقم اداکرکے ہی جان چھڑاتے ہیں۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن سے آپ کو ایسا کرنے کی توقع نہیں ہوتی۔امریکہ کی ٹیکس بری پولیس نے اس بات کا اعترف کیا ہے کہ گذشتہ سال انھوں نے بھی اپنے کمپیوٹر نظام کے بند ہونے کے بعد بلیک میلروں کو تاوان ادا کیا تھا۔چیف پولیس افسر ٹموتھی شاہین نے میڈیا کو بتایا کہ ’کوئی بھی دہشت گردوں سے معاملات طے نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہم نے وہی کیا جو اس وقت ممکن تھا۔ اور ایسا کرتے ہم اپنے آپ کو انتہائی بے بس محسوس کر رہے تھے۔‘پروفیسر وڈورڈ کا کہنا ہے کہ 'ہم یہی مشورہ دیں گے کہ ان بلیک میلروں کو رقم ادا نہ کی جائے کیونکہ یہ ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔‘